گر انتہائی مجبور ی کی وجہ سے چار فرائض میں دو پڑھ کر ہی سلام پھیرنا پڑ جاۓ تو کیا صرف دو اور پڑھیں گے یا پھر پوری نماز لوٹا نا ہو گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
اگر نماز کا اختصار کسی کی ہلاکت کے باعث نا گزیر ہو یا مالی خسارہ کے پیش نظر ہو تو کسی نقصان سے بچنے یا کسی کو بچانے کے لیے نماز کو مختصر یا توڑنا جائز بلکہ واجب ہے۔
کیونکہ نماز دوبارہ پڑھنا ممکن ہے، جبکہ مریض کا خیال کرنے میں تاخیر میں اس کی موت کا خدشہ ہے۔ اور حادثہ زائل ہونے کے بعد وہ از سر نو دوبارہ نماز پڑھے ۔
بوقت مجبوری نماز توڑنے اور از سر نو نماز پڑھنے کے حوالے سے مفتی عبید اللہ عفیف صاحب حفظہ اللہ کا ایک فتوی ملاحظہ کریں:
ہاں نماز چھوڑ سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اکیلا فرض پڑھ رہا ہو اور جماعت کے لئے اقامت ہو جائے تو فرض چھوڑ کر نماز میں شامل ہونے کا حکم۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اکیلے کی نماز سے جماعت کی نماز افضل ہے۔ ایسے ہی گاڑی آنے کے وقت جو نماز پڑھے گا وہ بے قراری اور بے چینی کی نماز ہوگی اور جو گاڑی سوار ہونے کے بعد پڑھے گا وہ تسلی اور اطمینان کی نماز ہوگی جو افراتفری کی نماز سے بہرحال افضل ہے۔ اس بنا پر نماز توڑ کر گاڑی پر سوار ہو کر تسلی اور اطمینان سے نماز پڑھے۔ پہلی نماز پر بنا کرنا ثابت نہیں، لہٰذا از سر نو پوری نماز پڑھے۔ محدث عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ فتویٰ ہے۔
دیکھیے :فتاویٰ محمدیہ/جلد :1/صفحہ : ۵۵۵
اور الشیخ محمد صالح المنجد اپنے ایک فتوے میں فرماتے ہیں :
بلكہ علماء كرام نے تو صرف جان ہى نہيں بلكہ مال بچانے كى ضرورت كى بنا پر فرضى نماز توڑنے كا بھى حكم بيان كيا ہے، امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى كتاب العمل فى الصلاۃ باب نمبر ( 11 ) ميں باب كا عنوان باندھتے ہوئے كہا ہے:
" جب نماز ميں جانور بدھك جائے " اور قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: اگر چور اس كا كپڑا لے جائے تو وہ نماز چھوڑ كر چور كا پيچھا كرے " انتہى
اور علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے اس باب كى شرح كرتے ہوئے نقول ذكر كى ہيں جو ہمارے اس موضوع كے مطابق ہيں ابن رجب كہتے ہيں:
" عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنى كتاب ميں معمر عن الحسن اور قتادہ سے نقل كيا ہے كہ:
ايك شخص نماز ادا كر رہا ہو اور اسے اپنى سوارى كے جانے كا خدشہ ہو يا پھر اس پر وحشى جانور حملہ كر ديں تو كيا كرے ؟
انہوں نے كہا: وہ نماز چھوڑ دے.
اور معمر قتادہ سے بيان كرتے ہيں كہ ميں نے قتادہ سے دريافت كرتے ہوئے كہا:
ايك شخص نماد ادا كر رہا ہو اور ديكھے كہ بچہ كنوئيں كے كنارے ہيں اور وہ اس ميں گر جائيگا تو كيا وہ نماز توڑ دے ؟
قتادہ رحمہ اللہ نے كہا: جى ہاں وہ نماز توڑ دے.
ميں نے عرض كيا: وہ ديكھے كہ ايك چور اس كا جوتا لے كر جانے لگا ہے ؟
تو قتادہ رحمہ اللہ نے كہا: وہ نماز چھوڑ دے.
اور سفيان رحمہ اللہ كا مسلك ہے كہ: اگر نماز ميں كسى شخص كو كوئى اہم اور عظيم چيز پيش آ جائے تو وہ نماز چھوڑ كر اسے حل كرے " اسے معافى نے سفيان سے روايت كيا ہے.
اور ہمارے اصحاب كا مسلك ہے كہ:
اگر نماز ميں كسى غرق ہونے والے يا آگ ميں جلنے والے شخص كو ديكھے يا دو بچوں كو لڑتا ہوا ديكھے اور وہ اسے زائل كرنے اور بچانے پر قادر ہو تو نماز چھوڑ دے اور انہيں جا كر بچائے.
امام احمد رحمہ اللہ يہ بھى كہتے ہيں:
" اگر ديكھے كہ بچہ كنويں ميں گر جائيگا تو وہ نماز چھوڑ كر اسے پكڑے.
اور امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو برزہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث صحيح بخارى ميں حماد بن زيد عن الزرق كے طريق سے نقل كى ہے اس ميں وارد ہے كہ:
گھوڑا بھاگ گيا تو انہوں نے اپنى نماز چھوڑ كر گھوڑے كا پيچھا كيا اور اسے پكڑ ليا اور لا كر اسے باندھا اور نماز قضاء كى " انتہى
اور احناف كى كتاب در المختار ميں درج ہے:
" غرق ہونے اور آگ ميں جلنے والے شخص كو بچانے كے ليے نماز توڑنى واجب ہے " انتہى
ديكھيں: الدر المختار ( 2 / 51 ).
ابن عابدين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حاصل يہ ہوا كہ جب نمازى دوران نماز كسى كے بچانے كى آواز سنے اگرچہ وہ پكار اور نداء كرنے والے اسے نہيں پكار رہا يا پھر كوئى اجنبى ہو چاہے اسے علم نہ بھى ہو كہ پكارنے والے كو كيا مشكل پيش آئى ہے يا علم بھى ہو اور وہ بچانے كى قدرت اور استطاعت ركھتا ہو تو اس كے ليے نماز چھوڑ كر مدد كرنا واجب ہے، چاہے نماز فرضى ہو يا نفلى " انتہى
ديكھيں: رد المختار ( 2 / 51 ).
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment